علم کی ابتدا ہے ہنگامہ۔۔۔۔۔ علم کی انتہا ہے خاموشی


ایک دن میری خامشی نے مجھے
لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا


مسلسل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے


ہم نے اول تو کبھی اس کو پکارا ہی نہیں
اور پکارا تو پکارا بھی صداؤں کے بغیر


– یہ خاموشی،
جو اب گفتگو کے بیچ ٹھہری ہے
.یقین جانو!
یہی اک بات ساری گفتگو سے گہری ہے.


خاموشی میں چاہے جتنا بیگانہ پن ہو
لیکن اک آہٹ جانی پہچانی ہوتی ہے


خاموشی کا حاصل بھی اک لمبی سی خاموشی تھی
ان کی بات سنی بھی ہم نے اپنی بات سنائی بھی


جو سنتا ہوں سنتا ہوں میں اپنی خموشی سے
جو کہتی ہے کہتی ہے مجھ سے مری خاموشی


بے مقصد محفل سے بہتر تنہائی
بے مطلب باتوں سے اچھی خاموشی


ہر ایک بات زباں سے کہی نہیں جاتی
جو چپکے بیٹھے ہیں کچھ ان کی بات بھی سمجھو

ایک دن میری خامشی نے مجھے لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا مسلسل بولتا ہی رہتا ہوں کتنا خاموش ہوں میں اندر سے ہم نے...

حاسد اور حسد


جلانے کے لئے ہستی کو اپنی
حسد کی ایک چنگاری بہت ہے

مختار نسیم

جلانے کے لئے ہستی کو اپنی حسد کی ایک چنگاری بہت ہے مختار نسیم

آج کی بات ۔۔۔ 26 فروری 2018

~!~ آج کی بات ~!~

خوشیوں کی راہ اس وقت ہموار ہوتی ہے جب ہم شکوہ کا ڈھیر لگانا بند کر دیتے ہیں۔

~!~ آج کی بات ~!~ خوشیوں کی راہ اس وقت ہموار ہوتی ہے جب ہم شکوہ کا ڈھیر لگانا بند کر دیتے ہیں۔

رَاضی کر لے اپنا اللہ (منظوم ترجمہ)

Related image

رَاضی کر لے اپنا اللہ
(منظوم ترجمہ)
سیما آفتاب

اٹھ بندے اورپکڑ مصلیٰ
رَاضی کر لے اپنا اللہ

کھائے سود اور حج کو جائے
لوگوں میں حاجی کہلائے
یوں بخشش کب ہوگی تیری
چاہے لاکھوں روپ بنائے
وہ پیسہ نہ کام آئے گا
جس نے تجھے پاگل کرڈالا

اٹھ بندے اورپکڑ مصلیٰ
رَاضی کر لے اپنا اللہ

پڑھ پڑھ تو نے حد کرڈالی
پر سچ جھوٹ سمجھ نہ پایا
ہر شے کو صابن سے دھوتا
اندر سے کوئی نہ صفائی 
تیرے ساتھ نہ جائیں گے ’وہ‘
جن کی خاطر جھوٹ تُو بولا

اٹھ بندے اورپکڑ مصلیٰ
رَاضی کر لے اپنا اللہ

بڑے بڑے ہیں محل بسائے
پر آگے کی خبر نہ پائے
'مالک' کا جب حکم آئے گا
پھر نہ ملے گا ٹھکانہ کوئی
اب بھی وقت ہے کرلے توبہ
ورنہ قبر میں روئے گا تنہا

اٹھ بندے اورپکڑ مصلیٰ
رَاضی کر لے اپنا اللہ

جب پڑھ کر ہے عمل نہ کرنا
پھر کاہے کو کلمہ پڑھنا
رب کو منانا کیوں کر ممکن
جب اس 'رب' سے ہے نہیں ڈرنا
گر کہلائے تو ’عبداللہ‘
کرلے صاف تودامن اپنا

اٹھ بندے اورپکڑ مصلیٰ
رَاضی کر لے اپنا اللہ

حوصلہ افزائی اور اصلاح کی منتظر

سیما آفتاب


رَاضی کر لے اپنا اللہ (منظوم ترجمہ) سیما آفتاب اٹھ بندے اورپکڑ مصلیٰ رَاضی کر لے اپنا اللہ کھائے سود اور حج کو جائے ...

آج کی بات ۔۔۔ 25 فروری 2018

~!~ آج کی بات ~!~

 گمان سے دھیان تک ہر شے الله کے حکم سے اثر کرتی اور اثر رکھتی ہے،
 اسی لیے ہم سے آنکھ کی جنبش اور نیت کی خامی تک کا سوال کیا جائے گا۔  

~!~ آج کی بات ~!~   گمان سے دھیان تک ہر شے الله کے حکم سے اثر کرتی اور اثر رکھتی ہے،  اسی لیے ہم سے آنکھ کی جنبش اور نیت کی خامی ...

الفاظ سے خوشبو ترے کردار کی نکلی

Image result for words
تحریر: نعیم شاہ

 الفاظ کس طرح نہ صرف انسان بلکہ دیگر موجودات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اس کا آنکھیں کھولنے والا تجربہ ایک جاپانی سائنس دان Dr. Masaru Emoto نے پانی پر کیا جس کا احوال ان کی کتاب The hidden message in water میں بیان کیا گیا ہے، جس کا اردو ترجمہ محمد علی سید نے اپنی کتاب ’’پانی کے عجائبات‘‘ میں بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے، جسے پڑھ کر ہمیں شکر اور ناشکری کے الفاظ کے حیران کن اثرات کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس جاپانی سائنس دان نے پانی کو اپنی لیبارٹری میں برف کے ذرات یعنی کرسٹلزکی شکل میں جمانے کا کام شروع کیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے ڈسٹلڈ واٹر، نلکے کے پانی اور دریا اور جھیل کے پانیوں کے نمونے لیے اور انھیں برف کے ذرات یعنی Crystals کی شکل میں جمایا۔

اس تجربے سے اسے معلوم ہوا کہ پانی، اگر بالکل خالص ہو تو اس کے کرسٹل بہت خوبصورت بنتے ہیں لیکن اگر خالص نہ ہو تو کرسٹل سرے سے بنتے ہی نہیں یا بہت بدشکل بنتے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ ڈسٹلڈ واٹر سے (جو انجکشن میں استعمال ہوتا ہے) خوبصورت کرسٹل بنے، صاف پانی والی جھیل کے پانی سے بھی کرسٹل بنے لیکن نلکے کے پانی سے کرسٹل بالکل ہی نہیں بنے کیوں کہ اس میں کلورین اور دوسرے جراثیم کش اجزا شامل تھے۔اس کے بعد اس نے ایک اور تجربہ کیا جس کے نتائج حیران کردینے والے تھے۔ اس نے شیشے کی سفید بوتلوں میں مختلف اقسام کے پانیوں کے نمونے جمع کیے۔

ڈسٹلڈ واٹر والی بوتل پر اس نے لکھا “You Fool” اور نلکے کے پانی والی بوتل پر لکھا “Thank You” یعنی خالص پانی کو حقارت آمیز جملے سے مخاطب کیا اور نلکے کے پانی کو شکر گزاری کے الفاظ سے اور ان دو بوتلوں کو لیبارٹری میں مختلف مقامات پر رکھ دیا۔ لیبارٹری کے تمام ملازمین سے کہا گیا جب اس بوتل کے پاس سے گزرو تو You Fool والی بوتل کے پانی کو دیکھ کر کہو “You Fool” اور “Thank You” والی بوتل کے پاس ٹھہرکر سینے پر ہاتھ رکھ کر جھک جاؤ اور بڑی شکر گزاری کے ساتھ اس سے کہو “Thank You”۔

یہ عمل 25 دن جاری رہا۔ 25 ویں دن دونوں بوتلوں کے پانیوں کو برف بنانے کے عمل سے گزارا گیا۔ نتائج حیران کن تھے۔ ڈسٹلڈ واٹر سے (جو خالص پانی تھا اور اس سے پہلے اسی پانی سے بہت خوبصورت کرسٹل بنے تھے) کرسٹل تو بن گئے لیکن انتہائی بدشکل۔ ڈاکٹر اموٹو کے کہنے کے مطابق یہ کرسٹل اس پانی کے کرسٹل سے ملتے جلتے تھے جن پر ایک مرتبہ انھوں نے “SATAN” یعنی شیطان لکھ کر رکھ دیا تھا۔

نلکے والا پانی جس سے پہلے کرسٹل نہیں بنے تھے، اس مرتبہ اس پر ’’تھینک یو‘‘ لکھا ہوا تھا اور کئی لوگ 25 دن تک اس پانی کو دیکھ کر ’’تھینک یو‘‘ کہتے رہے تھے، اس پانی سے بہترین اور خوب صورت کرسٹل بن گئے تھے۔اس کا مطلب یہ کہ نعمتوں کو ٹھکرانے، انھیں حقیر سمجھنے اور ان کا مضحکہ اڑانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ خالص پانی آلودہ پانی میں تبدیل ہوگیا۔ نعمتوں کا ادراک کرنے اور انھیں دیکھ کر شکریہ ادا کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آلودہ پانی خالص آب حیات میں تبدیل ہوگیا۔
ہمیں ترقی یافتہ، مہذب قوم بننے کے لیے دوسروں کی تعریف اور شکریہ ادا کرنا سیکھنا ہوگا۔ ان کی خامیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے کے بجائے ان کی اچھائیاں تلاش کرکے انھیں کھلے دل سے باآواز بلند سراہنا ہوگا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ صرف اسی وقت ہم ایک اخلاقی و ایمانی طور پر پھلتی پھولتی قوم بن پائیں گے۔

الفاظ کا اثر تحریر: نعیم شاہ  الفاظ کس طرح نہ صرف انسان بلکہ دیگر موجودات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اس کا آنکھیں کھولنے والا تجرب...

آج کی بات ۔۔۔24 فروری 2018

~!~ آج کی بات ~!~

ہم زندگی میں اکثر چیزوں کی تمنا کر کے سوچتے ہیں کہ جب مجھے یہ مل جائے گا تو میں بہت خوش ہو جاؤں گا۔
غلط۔۔۔
 خوشی ہمارے اندر ہوتی ہے۔ 
اگر کچھ نہ ہو کر بھی ہم خوش نہیں ہیں تو کچھ پا کربھی نہیں ہوں گے۔

نمل از نمرہ احمد

~!~ آج کی بات ~!~ ہم زندگی میں اکثر چیزوں کی تمنا کر کے سوچتے ہیں کہ جب مجھے یہ مل جائے گا تو میں بہت خوش ہو جاؤں گا۔ غلط۔۔۔  خو...

شرم و حیا شریعت کی روشنی میں۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)




شرم و حیا شریعت کی روشنی میں (اقتباس)
خطبہ جمعہ مسجد النبوی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
بشکریہ: اردو مجلس فورم

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے07-جمادی ثانیہ-1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں" شرم و حیا شریعت کی روشنی میں" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ اسمائے حسنی کی معرفت عبادت الہی کی کنجی ہے انہی اسمائے حسنی میں سے ایک "اَلْحَيِيُّ" یعنی بہت زیادہ حیا کرنے والا بھی ہے، حیا اللہ تعالی کی صفت ہے، اس کا ذکر کتاب و سنت میں موجود ہے، حیا تمام تر اخلاقی اقدار کا سرچشمہ ہے، حیا انسان کو برائی سے روکتی ہے اور اچھے کاموں کی ترغیب دلاتی ہے، حیا ان اخلاقی اقدار میں شامل ہے جو اولین زمانۂ نبوت سے معتبر اور مطلوب ہیں، حیا سے اشرف المخلوقات سمیت فرشتے بھی موصوف ہیں، آدم، نوح، موسی سمیت تمام کے تمام انبیائے علیہم السلام حیا سے آراستہ تھے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ با حیا تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے فرشتے بھی حیا کرتے تھے، حیا خواتین کا فطری زیور اور زینت ہے، اسی لیے سیدہ عائشہ اور دیگر صحابیات حیا کی پیکر تھیں، بلکہ اہل جاہلیت بھی حیا پر قائم دائم تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حیا سرتا پا خیر ہی خیر ہے، حیا کی وجہ سے ہمیشہ خیر ہی برآمد ہوتی ہے، حیا کی بدولت انسان اچھے اخلاق کا عادی بن جاتا ہے، اور تمام اہل سنت کے ہاں حیا ایمان کا حصہ ہے، حیا چھن جائے تو یہ ایمان چھن جانے کی علامت ہوتی ہے، اور جب حیا ہی نہ رہے تو انسان جو چاہے کرتا جائے، اگر انسان میں گناہ کرے تو اس سے حیا میں کمی آ جاتی ہے، حیا کسی بھی چیز میں پائی جائے تو اسے خوبصورت بنا دیتی ہے، جو شخص اللہ تعالی سے حیا کرے تو اللہ تعالی بھی اس کی لاج رکھ لیتا ہے، حیا کا اعلی ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی سے حیا کرے، حیا ایک نور ہے جو انسان کو خلوت و جلوت میں استقامت پر مجبور کرتا ہے، دل میں حیا پختہ کرنے کیلیے اللہ تعالی کی نعمتوں اور احسانات کو یاد کریں اور اس کے مقابلے میں اپنی کارستانیوں کو مد نظر رکھیں، اور یہ تصور بنائے کہ اللہ تعالی اسے ہر وقت دیکھ اور سن رہا ہے، انسان کو اپنے ساتھیوں سمیت نگران فرشتوں سے بھی حیا کرنی چاہیے، بلکہ تنہائی میں اپنے آپ سے بھی حیا کرے، اگر کوئی شخص تنہائی میں اپنے آپ سے حیا نہیں کرتا تو اس کے ضمیر میں لوگوں کی اپنے آپ سے زیادہ اہمیت ہے؛ اسی لیے تو جو گناہ لوگوں کے سامنے نہیں کرتا وہ تنہائی میں کر گزرتا ہے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو میں موجود حیا سے مراد ایسی اخلاقی قدر ہے جو انسان کو اچھے کاموں پر ابھارے اور برے کاموں سے روکے، لیکن جس حیا سے حقوق اللہ یا حقوق العباد میں کمی آتی ہے تو در حقیقت اس کا حیا سے کوئی تعلق نہیں۔ آخر میں انہوں نے جامع دعا فرمائی۔

منتخب اقتباس:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

عبادتِ الہی کی کنجی اور راز اسما و صفاتِ الہی کی معرفت میں پنہاں ہے، اللہ تعالی کے تمام نام اچھے اور اس کی صفات اعلی ہیں، اللہ تعالی کے ہر نام اور صفت کی خاص عبادت بھی ہے جو کہ ان کی معرفت کا تقاضا ہے، اللہ تعالی کو اپنے اسما اور صفات پسند ہیں، اللہ تعالی اپنے اسما و صفات کے آثار اپنی مخلوق میں دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے اللہ تعالی نے ان کے واسطے سے دعا کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: 
{وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا}
 اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں، اللہ کو ان کے ذریعے پکارو ۔[الأعراف: 180]

اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک "اَلْحَيِيُّ" ہے اور حیا اللہ تعالی کی صفت ہے، اللہ تعالی نے خود اپنی اس صفت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
 {إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا} 
اللہ تعالی قطعاً اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ کسی مچھر یا اس سے بھی کسی حقیر تر چیز کی مثال بیان کرے۔ [البقرة: 26]
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ تعالی کا یہ نام بتلاتے ہوئے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی"اَلْحَيِيُّ" اور "اَلسِتِّیْرُ" ہے، اور حیا سمیت پردہ پوشی کو بھی پسند فرماتا ہے ) ابو داود

اللہ تعالی کو اٹھے ہوئے ہاتھ خالی لوٹانے سے بھی حیا آتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک تمہارا پروردگار حیا کرنے والا اور نہایت کرم کرنے والا ہے، وہ اپنے بندے سے حیا کرتا ہے کہ جب وہ اس کی جانب ہاتھ اٹھائے تو انہیں خالی واپس لوٹا دے) ابو داود

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ تعالی کی اپنے بندے سے حیا کرنے کی کیفیت انسانی ذہن سے بالا تر ہے؛ عقل اس کی کیفیت بیان کرنے سے قاصر ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کی حیا میں سخاوت، احسان، جود اور جلال شامل ہے"

حیا ایک ایسی اخلاقی قدر ہے جو اولین زمانۂ نبوت سے مطلوب اور اخلاقی فرائض میں شامل ہے، تمام کے تمام انبیائے کرام نے اپنی امتوں کو حیا کی ترغیب دلائی، نیز سابقہ انبیائے کرام کی شریعتوں کی تنسیخ کے دوران حیا کو منسوخ نہیں کیا گیا، نہ ہی اس کا کوئی متبادل لایا گیا؛ کیونکہ حیا سر تا پا اعلی اور افضل ترین خصلت ہے، عقل اس کی خوبیوں کی معترف ہے؛ چنانچہ جس چیز میں اتنی خوبیاں پائی جاتی ہوں اس کی تنسیخ یا اس میں تبدیلی روا نہیں ہو سکتی ؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (لوگوں نے ابتدائی نبوتوں کی تعلیمات میں سے جو چیز [آج تک] پائی وہ یہ ہے کہ: "جب حیا نہ ہو تو جو مرضی کر")بخاری

انبیائے کرام اپنی اقوام میں حیا داری میں مشہور ہوتے ہیں، روزِ قیامت جب لوگ (آدم ،نوح اور موسی علیہم السلام سے شفاعت طلب کریں گے تو انہیں اپنی اپنی غلطی یاد آ جائے گی اور شفاعت کرنے سے شرما جائیں گے) بخاری

موسی علیہ السلام حیا کے پیکر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک موسی علیہ السلام انتہائی حیادار اور پردے میں رہنے والے تھے، آپ کی حیا کی وجہ سے آپ کی جلد کا کوئی حصہ دِکھ نہیں سکتا تھا) بخاری

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیا آپ کے چہرے سے عیاں ہو جاتی تھی، چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردے میں چھپی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے، آپ کو کوئی چیز ناگوار گزرتی تو آپ کے چہرے سے ہم پہچان جاتے تھے ) متفق علیہ

معراج کی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم موسی علیہ السلام اور اللہ تعالی کے درمیان بار بار چکر لگاتے رہے کہ نمازوں میں مزید تخفیف کر دی جائے، یہاں تک آپ نے فرما دیا: (اب مجھے اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے) متفق علیہ

خواتین کو پیدا ہی حیا پر کیا گیا ہے، در حقیقت حیا ہی عورت کا زیور اور زینت ہے، یہی حیا عورت کیلیے تحفظ اور امن کی ضامن ہے، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا [شادی پر رضا مندی کے متعلق]کہتی ہیں کہ: "اللہ کے رسول! کنواری تو شرمیلی ہوتی ہے" [وہ ہاں یا انکار نہیں کر پاتی]تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس کی خاموشی ہی شادی پر رضا مندی ہوتی ہے) بخاری

[موسی علیہ السلام کے واقعے میں]مدین والے کی بیٹی جب چلتی ہوئی آئی تو مکمل طور پر حیا کی پیکر تھی، انہوں نے اپنا چہرہ کپڑے اور ہاتھ سے ڈھانپا ہوا تھا اسی کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
{فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ}
 اتنے میں ان دونوں میں سے ایک ان کی طرف شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی۔ [القصص: 25]

ایک صحابیہ نے تکلیف تو برداشت کر لی لیکن حیا کا پردہ چاک ہونا منظور نہ کیا تو انہیں جنت کی بشارت دے دی گئی، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما عطاء بن ابو رباح رحمہ اللہ سے کہتے ہیں: "کیا میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ تو میں [عطاء] نے کہا: کیوں نہیں!۔ تو ابن عباس نے کہا: یہ کالی عورت جنتی ہے، وہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: مجھے بیہوشی [مرگی] کی شکایت ہے ، جس کی وجہ سے پردہ کھل جاتا ہے، اللہ سے میرے لیے دعا کر دیں" اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم چاہو تو صبر کر لو اور تمہیں جنت ملے گی، لیکن اگر چاہو تو میں اللہ سے تمہارے لیے عافیت کی دعا کر دیتا ہوں) "تو اس خاتون نے کہا: میں صبر کرتی ہو، لیکن بیہوشی میں پردہ کھل جاتا ہے تو اللہ سے دعا کر دیں میرا پردہ نہ کھلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرما دی" متفق علیہ

حیا داری ان عظیم اخلاقیات میں سے ہے جن پر اہل جاہلیت بھی قائم دائم تھے، ابو سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "جس وقت مجھ سے ہرقل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا اور میں اس وقت ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا تو: بخدا! اگر مجھے حیا داری کا خیال نہ ہوتا کہ میرے ساتھی میری جھوٹی بات آگے بتلائیں گے تو میں اس وقت جھوٹ بول دیتا ، لیکن مجھے اس وقت ایسا کرنے سے حیا نے روک دیا ، اس لیے میں نے سچ بات کی" متفق علیہ

در حقیقت حیا ہی خوشحالی اور ترقی کا سبب ہے، حیا ساری کی ساری خیر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (حیا خیر ہی خیر ہے)یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (ساری کی ساری حیا خیر ہے) مسلم

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "حیا قلبی حیات کا جوہر ہے، حیا ہمہ قسم کی بھلائی کا سرچشمہ ہے، اگر حیا ختم ہو جائے تو پھر بہتری کی کوئی رمق باقی نہیں رہتی"

حیا کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان اچھے اخلاق کا عادی بن جاتا ہے اور مذموم صفات سے دور رہتا ہے، پھر جب انسان کی حیا جوبن پر ہو تو اپنی عزت کی حفاظت کرتا ہے ، اپنی کوتاہیوں کو چھپاتا ہے اور اپنا مثبت کردار سامنے لاتا ہے۔

ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں: "حیا ایمان کا حصہ ہے، مومن جنت میں جائے گا، کسی سے حیا اسی وقت چھینی جاتی ہے جب اس میں ایمان باقی نہ رہے"

ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے تو وہ اپنے بھائی کو حیا کی وجہ سے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہہ رہا تھا: "تم بہت زیادہ حیا کرتے ہو" اس نے یہاں تک بات کہنا چاہی کہ: "تمہاری حیا نے تمہیں نقصان پہنچایا ہے" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے چھوڑ دو، حیا تو ایمان کا حصہ ہے) متفق علیہ

اللہ تعالی کی طرف سے کسی بھی دل کو سب سے سنگین سزا یہ ہے کہ اس میں سے حیا چھین لے، ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "حیا اور ایمان دونوں کا آپس میں مضبوط رشتہ ہے، لہذا اگر ان میں سے ایک چیز بھی اٹھ گئی تو دوسری بھی اٹھ جائے گی"

اور اگر انسان سے حیا ہی چھین لی جائے تو قبیح، مذموم اور گری ہوئی حرکتوں سے کوئی چیز مانع نہیں رہتی، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان بھی ہے کہ: (جب تم حیا نہ کرو تو جو من میں آئے کرتے جاؤ) بخاری۔ ابن عبد البر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں: "اگر حیا کسی شخص کو حرام کاموں سے روک نہ پائے تو وہ صغیرہ گناہ کرے یا کبیرہ ؛ اس کیلیے سب یکساں ہیں۔ یعنی اس حدیث میں حیا کی کمی پر سخت وعید اور ڈانٹ پلائی گئی ہے"

گناہوں سے انسان کی حیا متاثر ہوتی ہے ، اور ممکن ہے کہ کلی طور پر حیا ختم ہو جائے ، بلکہ اسے اس چیز کی پرواہ ہی نہ رہے کہ لوگوں کو میری اس حالت کا علم ہو گیا تو وہ کیا کہیں گے! یا اس سے بھی دو قدم آگے بڑھتے ہوئے اپنی کارستانیاں خود سے بیان کرنے لگ جائے۔

حیا انسان کو با ادب ہونے پر ابھارتی ہے، (ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کے بارے میں پوچھا کہ اس کی خوبیاں مسلمان جیسی ہوتی ہیں[وہ کون سا درخت ہے؟]) اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہما کہنے لگے کہ میرے ذہن میں آیا کہ وہ تو کھجور کا درخت ہے، لیکن میں نے ابو بکر و عمر کو دیکھا کہ وہ جواب نہیں دے رہے تو مجھے بھی اچھا نہیں لگا کہ میں ان کی موجودگی میں بولوں" ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں کہ: "مجھے شرم آئی کہ میں بولوں" متفق علیہ

اعلی ترین حیا وہ ہے جو اللہ تعالی سے ہو؛ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی آپ کو ایسی جگہ نہ پائے جہاں سے اس نے روکا ہے اور جس جگہ کا اس نے حکم دیا ہے وہاں تمہاری غیر حاضری نہ ہو، اللہ تعالی کا حق زیادہ بنتا ہے کہ اس سے حیا کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی سے کما حقہ حیا کرو) ترمذی

انسان کے دل میں اللہ تعالی سے حیا اس وقت پختہ ہوتی ہے جب انسان اللہ تعالی کی نعمتوں اور احسانات پر نظر دوڑائے اور ان کے مقابلے میں اپنے کمی کوتاہی کو سامنے رکھے نیز یہ بھی تصور اجاگر کرے کہ اللہ تعالی ہر خفیہ اور اعلانیہ چیز سے واقف ہے؛ چنانچہ جس وقت انسان یہ بات اچھی طرح جانتا ہو کہ اللہ تعالی اسے دیکھ رہا ہے اور اس کی ہر چیز اللہ تعالی کی نظروں اور سماعت کے زیر اثر ہے تو انسان اللہ تعالی سے بہت زیادہ حیا کرے گا اور اللہ تعالی کی ناراضی کا باعث بننے والے امور سے دور رہے گا۔

انسان کے ساتھ ہر وقت فرشتے ہوتے ہیں ، ان فرشتوں کے احترام میں یہ شامل ہے کہ ان سے حیا کریں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (10) كِرَامًا كَاتِبِينَ (11) يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ}
 اور بیشک تم پر محافظ مقرر ہیں، [10] وہ معزز کاتب ہیں [11] انہیں معلوم ہے جو تم کرتے ہو۔[الانفطار: 10 - 12]

 ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ان معزز محافظوں سے حیا کرو، ان کا احترام کرو اور انہیں ایسی حرکت دکھانے سے شرم کرو جو تم انسانوں کو دکھانے سے شرماتے ہو"

لوگوں سے حیا اور شرم انسان کو اچھے کاموں پر ابھارتی ہے، اگر کسی انسان کو اپنے مسلمان بھائی سے صرف اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے شرماتے ہوئے گناہ نہیں کرتا تو یہی اس کیلیے کافی ہے، لوگوں سے حیا اللہ تعالی سے حیا کا ذریعہ ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص لوگوں سے حیا نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالی سے بھی حیا نہیں کرتا، نیز اگر کوئی شخص باحیا لوگوں سے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے تو اس کی حیا تروتازہ ہو جاتی ہے۔

سب سے اعلی بات تو یہ ہے کہ انسان خود اپنے آپ سے حیا کرے، چنانچہ اگر کوئی شخص تنہائی میں ایسا کام کرتا ہے جو لوگوں کے سامنے نہیں کرتا تو در حقیقت وہ شخص خود اپنا احترام نہیں کر رہا، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص لوگوں سے تو شرماتا ہے لیکن خود اپنے آپ سے نہیں شرماتا تو اس نے اپنے آپ کو لوگوں سے بھی حقیر اور ذلیل بنایا ہوا ہے، لیکن اگر اپنے آپ اور لوگوں سے شرماتا ہے لیکن اللہ تعالی سے حیا نہیں کرتا تو وہ معرفت الہی سے نابلد ہے۔

ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!

دین اسلام خوبیوں اور امتیازی صفات کا دین ہے، دین اسلام میں اعلی ترین اخلاقیات اور اوصافِ حمیدہ یکجا ہیں، دین اسلام میں ہر قسم کی بھلائی کا حکم موجود ہے، اسی طرح ہر قسم کے شر سے تنبیہ بھی ہے، اس لیے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خود عملی طور پر اسلام کو تھامیں، لوگوں کو اس کی دعوت دیں، اللہ تعالی سے حیا کا مطلب یہ ہے کہ اس کے احکامات کی تعمیل کریں اور نافرمانی سے بچیں۔

مسلمانو!

احادیث نبویہ کی روشنی میں قابل ستائش حیا ایسی اخلاقی قدر ہے جو انسان کو اچھے کام کرنے پر ابھارے اور برے کاموں سے روکے، جبکہ ایسی سستی اور کاہلی جس کی وجہ سے حقوق اللہ یا حقوق العباد میں کمی واقع ہو تو اس کا حیا سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص حیا کے باعث خیر سے محروم ہو تو یہ بھی اچھی چیز نہیں ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "بہترین خواتین انصاری خواتین ہیں، وہ دینی مسائل سمجھنے میں حیا کو رکاوٹ نہیں بناتیں" مسلم

لہذا دینی مسائل سیکھنے میں حیا اور شرم کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، اگر کوئی شخص شرم کھاتے ہوئے حصولِ علم کیلیے آگے نہیں بڑھتا تو وہ ہمیشہ علم سے محروم رہتا ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: "حیا اور تکبر کرنے والا کبھی علم حاصل نہیں کر سکتا"

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ} 
اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ [النحل: 90]

تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔

شرم و حیا شریعت کی روشنی میں (اقتباس) خطبہ جمعہ مسجد النبوی ترجمہ: شفقت الرحمان مغل بشکریہ: اردو مجلس فورم فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس...

راستہ صرف ایک

Image result for ‫صراط مستقیم شاعری‬‎
راستہ صرف ایک ۔ نہ کہ تين

میں سوچا کرتا تھا کہ مسلمان تنزّل کا شکار کیوں ہیں جبکہ غیر مُسلم ترقی کر رہے ہیں ؟

مارچ 1983ء سے ستمبر 1985ء تک میں پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تھا ۔ 1983ء میں جدید ٹیکنالوجی سے لَیس انسٹیٹوٹ کی منصوبہ بندی کے دوران متذکرہ بالا سوال نے میرا ذہن کئی دنوں سے پریشان کر رکھا تھا کہ ایک دن مجھے آواز آئی ” اگر تُو نے اللہ کے خوف کو دل میں بٹھا کر پڑھی تو وہ ہے تیری نماز“۔

بولنے والا میرا چپڑاسی محمد شکیل تھا جو چوتھی جماعت پاس سابق فوجی تھا ۔ اللہ کریم نے مجھے بابا شکیل کے ذریعہ وہ بات سمجھا دی تھی جو کوئی پڑھا لکھا مجھے نہ سمجھا سکا تھا ۔ بلا شُبہ بابا شکیل دُنیاوی عِلم اور مال سے محروم تھا لیکن اللہ نے اُسے دینی عِلم و عمل سے مالا مال کر رکھا تھا

اللہ سُبحانُہُ و تَعالٰی نے ہمیں ایک راستہ دِکھایا [صِراطُ المُستَقِیم] اور ہدایت کی کہ ہمارا کھانا ۔ پینا ۔ اُٹھنا ۔ بیٹھنا ۔ سونا ۔ جاگنا ۔ مِلنا ۔ جُلنا ۔ اِخلاق ۔ لین ۔ دین ۔ کاروبار غرضیکہ ہر عمل دین اِسلام کے مطابق ہونا چاہیئے ۔ ویسے تو ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں کہتے ہیں ِاھدِنَا صِرَاطَ المُستَقِیم یعنی دِکھا ہم کو راہ سیدھی جو کہ ایک ہی ہو سکتی ہے لیکن اپنی عملی زندگی میں ہم نے تین راستے بنا 
رکھے ہیں ۔

Three Paths

1 ۔ خانگی یا خاندانی معاملات کو ہم ایک طریقہ سے حل کرتے ہیں ۔

2 ۔ دفتر یا کاروبار کے معاملات کو ہم کسی اور نظریہ سے دیکھتے ہیں ۔

3 ۔ دین کو ہم نے بالکل الگ کر کے مسجد میں بند کر دیا ہے اور مسجد سے باہر صرف کسی کی موت یا نکاح پر استعمال کرتے ہیں ۔

ہماری حالت اُس شخص کی سی ہے جو ایک مقام سے ایک سِمت چلا ۔ بعد میں اُسے ایک اور کام یاد آیا ۔ چونکہ دوسرے کام کا راستہ مختلف تھا چنانچہ وہ واپس ہوا اور دوسرے کام میں لگ گیا ۔ پھر اُسے تیسرا کام یاد آیا اور اِس کا راستہ پہلے دو کاموں سے مختلف تھا چنانچہ وہ پھر مُڑا اور تیسرے کام کی طرف چل دیا ۔ اِس طرح وہ جس مقام سے چلا تھا اُسی کے گرد مُنڈلاتا رہا اور کسی سمت میں زیادہ پیش قدمی نہ کر سکا ۔

One Path

متذکّرہ بالا آدمی کے بر عکس ایک شخص نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے سارے کام ایک ہی طریقہ سے سرانجام دے گا چنانچہ وہ ایک ہی سِمت میں آگے بڑھتا گیا اور بہت آگے نکل گیا ۔ ملاحظہ ہوں دونوں صورتیں علمِ ہندسہ کی مدد سے ۔

غیرمُسلموں نے دین کو چھوڑ دیا اور اپنے خانگی اور کاروباری معاملات کو صرف نفع اور نقصان کی بُنیاد پر اُستوار کیا اور آگے بڑھتے چلے گئے گو دین کو چھوڑنے کے باعث اخلاقی اِنحطاط کا شکار ہوئے ۔ جب کہ بے عمل مسلمان نہ دین کے رہے نہ دُنیاوی کاموں میں ترقی کر سکے ۔ بقول شاعر ۔

نہ خُدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ۔ ۔ ۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

راستہ صرف ایک ۔ نہ کہ تين از: افتخار اجمل بھوپال میں سوچا کرتا تھا کہ مسلمان تنزّل کا شکار کیوں ہیں جبکہ غیر مُسلم ترقی کر رہے ہ...

آج کی بات ۔۔۔۔ 22 فروری 2018

~!~ آج کی بات ~!~

اہم بات یہ نہیں ہوتی کہ آپ کتنے پل اور کتنے لمحات زندہ رہے ہیں
 بلکہ اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ نے کتنے لمحات میں زندگی بھر دی اور ان سے فائدہ اُٹھایا۔

قاسم علی شاہ

~!~ آج کی بات ~!~ اہم بات یہ نہیں ہوتی کہ آپ کتنے پل اور کتنے لمحات زندہ رہے ہیں  بلکہ اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ نے کتنے لمحات میں زندگ...

منہ بند رکھیں

Image result for Close your mouth.

نیا گھر خرید رہے ہیں؟؟ ۔۔۔ منہ بند رکھیں

نئی گاڑی خرید رہے ہیں؟؟۔۔۔۔ منہ بند رکھیں

شادی کر رہے ہیں؟؟۔۔۔ منہ بند رکھیں

چھٹیاں گزارنے جا رہے ہیں؟؟۔۔۔ منہ بند رکھیں

ملازمت میں ترقی کا امکان ہے؟؟... منہ بند رکھیں


ایسا ہوتا ہے کہ ہم جو خواب دیکھتے ہیں/جو مقصد بناتے ہیں وہ پورے نہیں ہوتے جیسے ان کو پورا ہونا چاہئیے۔۔ اس کی ننانوے فیصد وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم قبل از وقت ،غلط لوگوں کے سامنے اور غلط وقت پر اپنے خوابوں اور خیالات کا اظہار کردیتے ہیں

ہم اس وقت غلط ہوتے ہیں جب ہم اپنی منصوبے، اپنی کامیابیاں، اپنے مقاصد ان لوگوں کو بتاتے ہیں جو خود کو ہمارا 'دوست' کہتے ہیں (جوکہ حقیقت میں ہوتے نہیں)۔ ان کا حسد اور منفی سوچ لوگوں کو آپ کے خلاف کرنے اور آپ کی عزت کو کم کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ اور آپ کا کوئی بھی منصوبہ اور کوشش کامیابی ہے ہمکنار ہونے سے پہلے سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہم اپنے منصوبے اور کامیابیاں ایسے لوگوں کے ساتھ شئیر نہ کریں تاکہ وہ آپ کو نقصان نہ پہنچا سکیں ۔۔۔

"اپنا منہ مند رکھیں" اور خدا پر سب چھوڑ دیں، کہ صحیح وقت پر سب کچھ ہو گا!

آپ کے 'دوستوں' کی ایک بڑی تعداد آپ کو کامیاب اور اچھا دیکھنا چاہتی ہے، مگر خود ان سے زیادہ نہیں۔۔ خاندان کے لوگوں میں بھی 'چھپا حسد' موجود ہوتا ہے

یہ ایک یاددہانی ہے۔۔۔ 

(منقول)



نیا گھر خرید رہے ہیں؟؟ ۔۔۔ منہ بند رکھیں نئی گاڑی خرید رہے ہیں؟؟۔۔۔۔ منہ بند رکھیں شادی کر رہے ہیں؟؟۔۔۔ منہ بند رکھیں چھٹیاں گزارنے ...

آج کی بات ۔۔۔ 21 فروری 2018

~!~ آج کی بات ~!~

جو انسان چیزوں کو ملکیت بنانا اپنی زندگی بنالیتا ہے؛
کچھ عرصے میں زندگی خود اسے چیزوں کی ملکیت بنادیتی ہے۔


~!~ آج کی بات ~!~ جو انسان چیزوں کو ملکیت بنانا اپنی زندگی بنالیتا ہے؛ کچھ عرصے میں زندگی خود اسے چیزوں کی ملکیت بنادیتی ہے۔ ...

دین کی کمزوری اور اس دور میں دین پرقائم رہنے والوں کی صفات۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)


مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی
جمعۃ المبارک 30 جمادی الاول 1439 ھ بمطابق 16 فروری 2018

ترجمہ: محمد عاطف الیاس

منتخب اقتباس:

تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، ہم اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں، اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور اسی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ اپنے نفس کے شر سے اور اپنے برے اعمال سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرما دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ تعالی گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کی رحمتیں اور سلامتیاں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر اور تمام صحابہ کرام پر۔

فرمان الٰہی ہے:
’’ اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘ (الاحزاب: 70۔ 71)

بعد ازاں!
امام مسلم نے اپنی کتاب “صحیح مسلم” میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اسلام اپنے آغاز میں بہت کمزور تھا اور ایک وقت آئے گا کہ یہ پھر ویسا ہی کمزور ہو جائے گا۔ اس وقت دین پرقائم رہنے والوں کا بھلا ہو۔
اسی طرح سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالئ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بے شک اسلام اپنی ابتدا میں بہت کمزور تھا اور ایک وقت آئے گا کہ یہ پھر ویسا ہی کمزور ہو جائے گا۔ اس وقت کے غرباء کا بھلا ہو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ! اس وقت کے غرباء کون ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: جو لوگوں کی گمراہی کے دور میں بھی نیکی پر قائم رہیں گے۔ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے

امام آجُرّی نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! غرباء کون ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: بگڑے معاشرے میں چند نیک لوگ ہونگے جن کی بات ماننے والے کم اور نہ ماننے والے زیادہ ہوں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی بھی ظاہر ہوگئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام اپنی ابتدا میں بہت کمزور تھا، پھر یہ نمایاں ہوگیا اور دنیا پر چھا گیا، دیندار لوگوں کو عزت ملی اور لوگ جوق درجوق دین اسلام میں داخل ہونے لگے، پھر اسلام کی کمزوری دوبارہ آگئی، کئی جگہوں پر بڑی شدت سے اس کی کمزوری محسوس ہونے لگی۔

اللہ کے بندو! دین کی کمزوری کی وجہ لوگوں میں شکوک وشبہات پیدا ہونا اور نفس کی پیروی کرنا ہے۔ لوگ ان میں یوں غرق ہوگئے ہیں کہ شیطان ان پر حاوی ہوگیا ہے، اور لوگ مخلوق کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ اس طرح فتنے اور آزمائشیں بڑھتی گئیں اور حالات خراب ہوتے گئے اور چیزیں غیر واضح ہوتی گئیں، مگر پھر بھی فتنوں سے بچنے کا طریقہ اور ان سے خلاصی کا راستہ بالکل واضح اور معلوم ہے۔

فرمان نبوی ہے:
نیک اعمال کے ذریعے ان فتنوں کا مقابلہ کرو جو بالکل رات کے سیاہ حصے جیسے ہونگے۔ جن میں انسان صبح مومن اور رات کو کافر، اور رات کو مومن اور سب وہ کافر ہو جائے گا۔ وہ اپنے دین کو دنیا کے تھوڑے بہت فائدے کیلئے بیچ ڈالے گا۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

اے مسلمانو!
اہل ایمان کو کمزوری کا سامنا کرانے میں ایک بڑی پوشیدہ حکمت ہے، اور وہ یہ ہے کہ اچھے اور برے کو الگ الگ کر لیا جائے، سچے اور جھوٹے کو جان لیا جائے اور اہل ایمان کو منافقین سے الگ کر لیا جائے۔ 

فرمان الٰہی ہے:
’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ “ہم ایمان لائے ” اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ (2) حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچّے کون ہیں اور جھوٹے کون۔‘‘ (العنکبوت: 2 3)

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دین کی کمزوری کے وقت اس پر قائم رہنے والے نقصان میں ہونگے، بلکہ وہ خوش نصیب ترین لوگ ہوں گے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ ان کا بھلا ہو۔
حدیث کے الفاظ ہیں: ان لوگوں کے لئے طوبیٰ ہے۔ اور طوبی کا لفظ نیکی اور پاکیزگی سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ وہ لوگ ان لوگوں کی طرح ہوں گے جنہوں نے دین کی ابتدا میں اس کا ساتھ دیا تھا اور وہ لوگ بھی سعادت مند ترین لوگ ہیں۔

اے میرے بھائیو!
ایسے لوگوں کو ممتاز کرنے والی چند صفات ہمیں ملتی ہیں جو ان کی نیکی، ثابت قدمی، بلند ہمت اور پختہ ارادے کو ظاہر کرتی ہیں۔
ان کے حوالے سے آنے والی احادیث میں سے ایسے لوگوں کی چند صفات ملتی ہیں:
ایک یہ کہ جب لوگ سنت کو چھوڑ دیں گے اور بدعتیں گھڑ لیں گے تو یہ لوگ سنت رسول پر قائم اور لوگوں کی بنائی ہوئی بدعتوں سے دور رہیں گے۔ یھی وہ لوگ ھیں جن کی مثال آگ کے کوئلے کو ہاتھ میں لینے والے کی سی ہے۔ کیونکہ یہ معاشرے میں بہت کم ہیں اور عام برای میں ان چند نیک لوگوں کو غلطی پر سمجھا جاتا ہے۔ مگر ان کے لیے دین پر ثابت قدمی کا شرف اور اللہ سے ملنے والا عظیم اجر ہی بہت ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایسے دن آنے والے ہیں کہ جن میں دین پر قائم رہنا ایسا مشکل ہوگا، بالکل ویسا جیسا اپنی مٹھی میں آگ کا کوئلہ رکھنا۔ ان دنوں میں نیک اعمال کرنے والے کو آپ جیسے پچاس لوگوں کا اجر ملے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارے پچاس لوگوں کا یا اس دور کے پچاس لوگوں کا؟ آپ نے فرمایا: نہیں! بلکہ آپ کے پچاس لوگوں کا۔ اسے امام ترمذی اور امام ابو داؤد اور امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

احادیث میں آنے والی ان لوگوں کی صفات میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ جب لوگوں میں برائی عام ہو جائے گی تو وہ حق پر قائم رہیں گے، دین کو مضبوطی سے تھامے رکھیں گے اور اللہ کی اطاعت پر اور دین پر ثابت قدم رہیں گے۔
اسی طرح وہ ان چیزوں کی اصلاح کرنے کی بھی کوشش کریں گے جنہیں لوگوں نے اپنی بدعتوں کی وجہ سے خراب کیا ہوگا۔ زمین میں فساد پھیلانے سے منع کریں گے۔

لوگوں کی عدم توجہ سے وہ حق سے دور نہیں ہوں گے بلکہ وہ برابر اس پر قائم رہیں گے اور اس کی طرف بلاتے رہیں گے۔

احادیث میں آنے والی صفات سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی کمزوری کے وقت اس پر قائم رہنے والے لوگ محض اپنے آپ میں ہی نہیں ہوتے، بلکہ وہ اصلاح کرنے والے بھی ہوتے ہیں، ان میں بصیرت اور سمجھداری پائی جاتی ہے اور وہ دعوت و تبلیغ کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کے اعتراضات کو دیکھتے ہوئے مایوس ہوکر معاشرے سے الگ ہوکر صرف اپنے لئے جینے اور اپنا خیال رکھنے میں مصروف نہیں ہو جاتے، بلکہ وہ پیغام دینے والے ہوتے ہیں اور لوگوں کو دین کی طرف لانے کے لیے ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھے رہتے ہیں۔

وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو اپنا رہبر مانتے ہیں کہ:
لوگوں کے ساتھ گھل مل جل کر ان کی اذیتیں برداشت کرنے والا مومن، ان سے الگ ہوجانے والے اور ان کی اذیتوں پر صبر نہ کرنے والے مومن سے بہتر ہے۔

 فرمان الٰہی ہے:
’’تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں۔‘‘ (ہود: 117)
جب زینب بنت جحش رضی اللہ تعالئ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا تھا کہ اے اللہ کے رسول! کیا نیک لوگوں کی موجودگی میں بھی ہمیں ہلاک کر دیا جائے گا؟ تو آپ نے فرمایا تھا: جی ہاں! اگر برائی غالب آگئی! اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب کے رکنے کی وجہ اور ہلاکت سے لوگوں کی حفاظت کی وجہ محض نیک لوگوں کی موجودگی نہیں بلکہ اصلاح کا کام کرنے والوں کی موجودگی ہے۔ چنانچہ انسان کو چاہیے کہ وہ خود بھی صالح ہو اور دوسروں کی بھی اصلاح کرتا رہے۔

الحمداللہ ہماری امت میں ابھی بہت خیر موجود ہے۔ اگرچہ حالات ویسے نہیں رہے اور اختلافات پھیل گئے ہیں، مگر ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ ابھی تک موجود ہیں جو دین اسلام کی خدمت میں لگے ہیں اور جو اسلام کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا شعار ہے کہ اگر دین کی خدمت میں نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا!
ایسے لوگ اس چیز کا انتظار نہیں کرتے کہ دوسرے اٹھ کر دین کی خدمت کریں اور نہ وہ دوسروں سے یہ مطالبہ ہی کرتے ہیں کہ وہ امت کے لئے اور دعوت کے کام کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، بلکہ وہ خود پیش قدمی کرنے والے ہوتے ہیں اور وہ اپنے آپکو دین کا رکھوالا سمجھتے ہیں۔

اللہ کے بندو! بعض لوگ دین کی کمزوری کے حوالے سے آنے والی احادیث کو سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں۔ جب وہ فتنوں کے متعلق آنے والی احادیث سنتے ہیں جیسے:
ہر آنے والا سال پچھلے سال سے برا ہوگا۔
اور دوسری حدیث کہ جس میں آپ نے فرمایا:
تم میں سے جسے زندگی ملے گی وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا۔
بعض لوگ ان احادیث سے یہ مطلب لے لیتے ہیں کہ امت کو تو کمزوری کی طرف جانا ہی ہے اور اسے کمزوری سے نکالنے کے لیے جدوجہد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ بزدلی کے ساتھ پستی اور ذلت کی زندگی گزارتے رہنا چاہیے۔

ایسے لوگوں کے ذہنوں سے دوسری احادیث اوجھل رہتی ہیں کہ جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی عزت اور روشن مستقبل کی طرف اشارہ کیا ہے۔
جیسا کہ آپ کا فرمان ہے:
میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، ان کی مخالفت کرنے والوں کا انہیں کچھ نقصان نہ پہنچے گا یہاں تک کہ جب اللہ کا حکم آئے گا تو وہ اسی حالت میں ہوں گے۔ اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح آپ کا فرمان ہے:
اللہ تعالی اس امت کے لیے ہر ایک سو سال کے بعد ایک ایسا شخص بھیجتا ہے جو اس کے دین کی تجدید کردیتا ہے۔ اسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔

اے مسلمان معاشرے کے لوگو!
امت کو درپیش مسائل، مصیبتیں اور آزمائشیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ایک تنبیہ ہیں، تاکہ لوگ اپنی نیند سے اٹھ جائیں اور وہ اپنی غفلت سے نکل آئیں۔ کیونکہ اس امت کو بیماری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اس کے احوال بگڑ سکتے ہیں، فتنے آسکتے ہیں اور اس کی آزمائش سخت ہو سکتی ہے جیسا کہ ہم آج دیکھ رہے ہیں، لیکن ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے کہ یہ امت مکمل طور پر ختم ہو جائے یا ساری امت کو ہلاک کردیا جائے، بلکہ یہ امت ہمیشہ قائم رہنے والی ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے:
’’دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔‘‘ (آل عمران: 110)

اے میرے بھائیو!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب مشرکین نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور وہ مدینہ کو تباہ کرنے کے لیے آ گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھود کر مدینہ کی حفاظت کا انتظام کیا اور ان سخت دنوں، تنگیوں اور پریشانیوں میں بھی لوگوں کے ساتھ قیصر و کسریٰ کے خزانوں کا وعدہ کیا۔ یہ بشارت سن کر اہل ایمان کے دل مطمئن ہو گئے اور ان کے دلوں میں امید کی کرنیں پھیل گئیں۔ فرمان الٰہی ہے:
’’اللہ نے کفار کا منہ پھیر دیا، وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یونہی پلٹ گئے، اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا، اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔‘‘ (الاحزاب: 25)
پھر اللہ تعالی نے اس حکومت کو بہت عزت عطا فرمائی، یہ تمام رکاوٹیں پار کرتی ہوئی فتح پر فتح حاصل کرتی گئی، خلفائے راشدین کے دور میں، بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر امت اسلام کو ایک بڑے سانحے کا سامنا ہوا اور بغداد میں ایک بڑے قتل عام ہوا۔ بغداد کی گلیوں میں خون بہنے لگا اور تاریخ نگار شہداء کی تعداد میں مختلف آراء کا اظہار کرنے لگے۔ کچھ نے تو آٹھ لاکھ شہید کا ذکر کیا ہے۔
اس واقعہ کے بعد لوگوں میں بے چینی پھیل گئی اور اور ان کی ہمت ٹوٹ گئی۔ انہوں نے سمجھا کہ توحید کا علم اب گر گیا ہے، اور اسلام کی تلوار اب ٹوٹ گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کیا آج کے بعد اسلام دوبارہ نہ اٹھے گا، مگر چند ہی سال گزرے اور امت کا زندہ دل پھر سے دھڑکنے لگا اور اس کی روح پھر سے حرکت میں آگئی، اور اس کی ہمت پھر بلند ہو گئی اور پھر کمزوری کی جگہ طاقت نے لے لی اور ذلت کی جگہ عزت نے لے لی، اور مسلمانوں نے بت پرست تاتاریوں کو شکست دی اور لوگوں کی یہ بات بھی غلط ثابت ہوئی کہ تاتاریوں کی فوج کو کبھی ہرایا نہیں جاسکتا۔

پھر چند سالوں کے بعد صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا اور صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا، بہت لوگوں کو قتل کیا اور اتنے لوگوں کو قیدی بنایا کہ ان کی تعداد اللہ ہی جانے! مگر پھر کچھ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اللہ تعالی نے اس امت کو صلاح الدین ایوبی سے نوازا، ہر چیز اپنی جگہ پر آ گئی، اسلام کی مقدسات محفوظ ہو گئیں اور باغی دشمن ہلاک ہوگیا۔

تاریخ ثابت کرتی ہے کہ جب بھی امت کے اندر کمزوری آتی ہے تو اس کمزوری کے بعد تجدیدی لہر ضرور پھیلتی ہے اور مجدد ائمہ اور مصلح علماء نکل آتے ہیں۔

بعد ازاں!
اہل اسلام کے ہاں یہ بات طے شدہ ہے کہ اللہ تعالی نے دین اسلام کی حفاظت اپنے ذمہ لی ہے، تاکہ لوگوں پر حجت قائم رہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’رہا یہ ذکر، تو اِس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اِس کے نگہبان ہیں۔‘‘ (الحجر: 9)
اسی طرح فرمایا:
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اِس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔‘‘ (الفتح: 28)

یہ غلبہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہی میں نہیں تھا بلکہ یہ ہر زمانے میں ہے۔

ہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالی اس دین میں ایسے لوگوں کے بیج ضرور بوتا رہتا ہے جن سے وہ دین کی خدمت کراتا ہے۔ اسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
یہ حدیث اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ یہ دین ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ چاہے وقتی طور پر حق کے آثار مٹ جائیں اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ختم ہوجائے اور دین کمزور ہو جائے، مگر یہ یقینی طور پر دین پھر سے توانا ہو کر مزید تیزی کے ساتھ دوبارہ پھیلتا ہے۔

بعض اہل علم نے تو دین کی کمزوری والی حدیث کو بشارت کے طور پر لیا ہے۔ جس میں آپ نے فرمایا ہے: دین اپنی ابتدا میں بہت کمزور تھا اور یہ دوبارہ ویسا ہی ہو جائے گا۔ اہل علم فرماتے ہیں یعنی جس طرح پہلی کمزوری کے بعد اسے عزت اور طاقت نصیب ہوئی ہے اسی طرح دوسری کمزوری کے بعد بھی اسے عزت اور غلبہ نصیب ہوگا۔

ایسی احادیث سے دلوں میں امید پیدا ہو جاتی ہے اور ان لوگوں کو تسلی ملتی ہے کہ جو مسلمانوں کی مصیبتیں دیکھ کر رنجیدہ اور مایوس ہو جاتے ہیں۔ ان بشارتوں سے ان لوگوں کے دلوں میں یقین مضبوط ہو جاتا ہے اور دین پر عمل کرنے کے لیے ہمتیں بلند ہو جاتی ہیں۔

دشمنان دین اس کے ساتھ کتنی ہی جنگ کیوں نہ کر لیں، اسے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور کیوں نہ لگا لیں، اہل اسلام کو اذیت دینے کی کتنی کوشش کیوں نہ کر لیں، مگر پھر بھی یہ دین کبھی نہ رکے گا، اس کا نور پھیل کر رہے گا، اس کا اثر لوگوں پر ظاہر ہو کر رہے گا اور جب تک یہ دن اور رات کا نظام قائم ہے اس وقت تک یہ دین موجود رہے گا۔ فرمان نبوی ہے:
یہ دین وہاں وہاں تک پہنچے گا جہاں جہاں تک دن کی روشنی اور رات کی تاریکی پہنچتی ہے۔ اللہ تعالی کوئی کچا یا پکا گھر ایسا نہ چھوڑے گا کہ جس کے اندر یہ دین داخل نہ ہو۔ چاہے اس کے لیے کسی عزت والے کو عزت ملے یا ذلیل کو رسوائی ملے۔ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

اے امت محمد!
اپنے دلوں میں اس یقین کو مضبوط کر لیجئے کہ اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا، اللہ تعالی اپنے بندوں کی نصرت ضرور فرمائے گا، دین کی یہ کمزوری عارضی کمزوری ہے۔ دین پر قائم رہو اور اسکے احکام بجا لاؤ اور دین کے مددگار بنو۔
اے حق کی طرف بلانے والو! معاشرے کی اصلاح، حق کی طرف بلانے اور لوگوں کو اپنے دین سے آگاہ کرنے کی مزید کوشش کرو مگر حکمت اور اچھے طریقے سے۔

اے اصلاح کرنے والو! اے تربیت کرنے والو! اپنی اولاد کا خاص خیال رکھو! انہیں صحیح عقیدہ توحید سے کھاؤ، درست منہج پر لاؤ، غلط اعتقادات اور غیر صحیح تصورات سے روکو۔ گمراہ کن افکار اور راہ راست سے ہٹے ہوئے منہج کی روک تھام کرو۔ لوگوں کو دین اسلام کی فضیلتوں کی طرف بلاؤ اور انہیں برائیوں اور گناہوں سے دور کرنے کی کوشش کرو۔
اے امت کے نوجوان لڑکو اور لڑکیو! دین اسلام پر فخر کرو، اس کی میانہ روی اور اعتدال پر مبنی تعلیمات پر عمل کرو، دین سے دور نہ جاؤ اور اسکی راہ چھوڑ کر دوسری راہ نہ اپناؤ۔ ایسا نہ ہو کہ تم دین کی کمزوری کا سبب بن جاؤ۔
اے مسلمان عورتو!
یاد رکھو کہ دین اسلام نے آپ کو بہت بلند مقام دیا ہے، دین اسلام کی آسان تعلیمات پر عمل کرتے رہو، اس کے بہترین اخلاق اپنائے رکھو، تربیت اور اصلاح میں اپنا کردار ادا کرتی رہو، گمراہی اور خواہشات نفس کی طرف بلانے والوں سے چوکنی رہو۔
اللہ کے بندو!
میں اللہ کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا اگر ہر باپ، ہر ماں، ہر تربیت دینے والا، ہر استاد اور ہر ذمہ دار اپنی ذمہ داریاں مکمل طریقہ سے ادا کرے اور اپنے سر پر ڈالی جانے والی امانت صحیح طرح ادا کرے تو کیا ہمیں ایسی بیماریاں نظر آئیں گی جیسی ہمیں آج معاشرے میں نظر آ رہی ہیں؟ کیا ہم میں سے ہر ایک نے اپنا کردار ادا کیا ہے، کیا ہر کوئی اللہ تعالی کے سامنے اپنی ذمہ داری کے حوالے سے سرخرو ہو سکتا ہے؟ ہر انسان خود اپنا محاسبہ بہتر طریقے سے کر سکتا ہے، اور ہر کوئی اپنے آپ کو بہتر جانتا ہے اور اللہ تعالی سب پر غالب ہے۔

دین کی کمزوری اور اس دور میں دین پرقائم رہنے والوں کی صفات مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی جمعۃ المبا...

آج کی بات ۔۔۔ 20 فروری 2018

~!~ آج کی بات ~!~

عاجزی و انکساری کسی امیر کو غریب نہیں بناتی،
اور نہ ہی غرور و تکبراپنا کر کوئی غریب امیر بن سکتا ہے۔

~!~ آج کی بات ~!~ عاجزی و انکساری کسی امیر کو غریب نہیں بناتی، اور نہ ہی غرور و تکبراپنا کر کوئی غریب امیر بن سکتا ہے۔

آج کی بات ۔۔۔۔۔ 19 فروری 2018

~!~ آج کی بات ~!~

ہم دس روپے کا نوٹ گر جانے یا جل جانے کو توخسارہ سمجھتے ہیں
لیکن دس منٹ غفلت میں گزرنے جانے کو خسارہ نہیں سمجھتے,

 جب کہ ایک کا تدارک ممکن ہے اور دوسرے کا تدارک ناممکن۔

~!~ آج کی بات ~!~ ہم دس روپے کا نوٹ گر جانے یا جل جانے کو توخسارہ سمجھتے ہیں لیکن دس منٹ غفلت میں گزرنے جانے کو خسارہ نہیں سمجھتے,...

زندگی آخرت کی تیاری کا واحد موقع - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)

Image result for masjid nabawi haramain
زندگی آخرت کی تیاری کا واحد موقع - خطبہ جمعہ مسجد نبوی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 30-جمادی اولی- 1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان " زندگی آخرت کی تیاری کا واحد موقع " ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ بہت زیادہ دنیا کی جانب مائل ہو چکے ہیں، ان کی زندگی کا اولین مقصد دنیا ہے، ان کی سوچ دنیا سے بالا تر ہو نے کی سکت نہیں رکھتی، ان کے ہاں دوستی اور تعلق داری کا یہی ایک معیار ہے، حالانکہ کامیاب شخص آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے اور اللہ تعالی کے فرامین کی عملی شکل بن کر زندگی گزارتا ہے، اللہ کا فرمان یہ ہے کہ آخرت کی تیاری رکھو اور دنیا کے لیے بقدر ضرورت تگ و دو کرو، یہی وجہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالی نے مختلف دعاؤں میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائیاں طلب کرنے کا حکم دیا ہے، دنیا کے لیے جینے والا شخص ہمیشہ ذہنی اسیری والی زندگی گزارتا ہے، اس کی فکری یکجہتی مفقود ہوتی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ آخرت کو اپنا ہدف بنانے سے بہت سے معاملات آسان ہو جاتے ہیں پھر اس کے نتیجے میں دنیا بھی ذلیل ہو کر اسے ملتی ہے، فرامین الہیہ کے مطابق آخرت کو بھول جانے والا انتہائی خسارے میں ہے، اور دنیا کے اسیر کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا ملنے پر خوش وگرنہ ناراض رہتا ہے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا سے تعلق ایک مسافر جیسا تھا جو سستانے کے لیے کسی سایے دار درخت کے نیچے بیٹھے اور پھر روئے منزل چل دے اور یہی طرزِ زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے، آخر میں انہوں نے سب کےلیے جامع دعائیں فرمائیں۔

منتخب اقتباس:

تمام تعریفیں اللہ کے لیے جس کا فرمان ہے: 
{بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى}
 بلکہ تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت تمہارے لیے بہترین اور دائمی ہے۔[الأعلى: 16، 17]

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں وہی اعلی اور بلند و بالا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے چنیدہ رسول ہیں، یا اللہ! اُن پر، اُن کی آل، اور تمام متقی صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

مسلمانو!

آج کچھ لوگوں کے حالات کو گہری نگاہ سے دیکھنے والا اس نتیجے پر پہنچے گا کہ وہ بہت زیادہ دنیا کی جانب مائل ہو چکے ہیں، حصولِ دنیا میں مگن ہیں، یا ان کا ہدفِ زندگی صرف دنیا ہے جس کی وجہ سے وہ صرف دنیا کے لیے ہی سوچتے ہیں، ان کے ہاں دوستی اور دشمنی کا معیار یہی دنیا ہے، ان کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی اسی دنیا کی خاطر ہوتی ہے، ان کے بارے میں کسی نے سچ کہا کہ:

ہر آفت زدگی کی علامت ہوتی ہے، اور تمہاری علامت ہے کہ تم ہوس پرستی سے باہر نکلتے نظر نہیں آ رہے۔

جبکہ کامیاب مومن شخص اپنی آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے، اور اپنی زندگی اسی نہج پر گزارتا ہے جس کی اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں منظر کشی کی اور فرمایا:
 {وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ}
 جو مال اللہ نے تجھے دے رکھا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور اپنا دنیاوی حصہ بھی فراموش نہ کر۔ اور لوگوں سے ایسے ہی احسان کرو جیسے اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے۔ [القصص: 77]
اسی لیے مومن حصول رزق حلال کے لیے اسباب اپنا کر مقدور بھر کوشش کرتا ہے، اور اس دھرتی کو رضائے الہی کا موجب بننے والے کردار سے آباد رکھتا ہے۔

پھر دنیا سے صرف اتنا مستفید ہوتا ہے کہ اس کا مذہبی تشخص اور آخرت متاثر نہ ہو یہی اللہ تعالی کے فرمان: {وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا} اور دنیا میں بھی اپنا حصہ فراموش نہ کرو [القصص: 77] کے دو معنوں میں سے ایک معنی ہے۔

مزید اللہ تعالی نے کا فرمان ہے:
 {رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ}
 ہمارے پروردگار ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی ، نیز ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ [البقرة: 201]

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس دعا نے دنیا کی تمام بھلائیاں سمولی ہیں اور ہر قسم کی برائی کو مٹا کر رکھ دیا ہے؛ کیونکہ اس دعا میں " حَسَنَةً " سے صحت، وسیع گھر، اچھی بیوی، کشادہ رزق، علم نافع، بہترین کارکردگی اور اچھی سواری سمیت ناموری جیسی تمام ضروریات مراد ہیں "

اسلامی بھائیو!

جو شخص اپنا بنیادی مقصد آخرت کو بنا لے، اسی کے لیے تگ و دو کرے تو اللہ تعالی اس کی دنیاوی ضروریات خود ہی پوری فرما دیتا ہے، لیکن جس کے دل پر دنیاوی فکر قابض ہو جائے، اس کا بنیادی مقصد دنیا ہی بن جائے تو وہ ہمیشہ ذہنی غلامی کی زندگی گزارتا ہے، اس کی سوچ بکھری ہوئی ہوتی ہے، وہ ذہنی یکسوئی سے محروم ہوتا ہے، اس کا فراوانی میں بھی پیٹ نہیں بھرتا، اور تھوڑی چیز پر خوش نہیں ہوتا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس کا مقصودِ زندگی آخرت ہو اللہ اس کے دل میں بے نیازی پیدا کر دیتا ہے، اور اسے دل جمعی عطا کرتا ہے ، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے۔ اور جس کا مقصود دنیا ہو، اللہ تعالی اس کی محتاجی اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے رکھ دیتا ہے اور اس کے معاملات بکھیر دیتا ہے، اور دنیا اس کے پاس اتنی ہی آتی ہے جو اس کے مقدر میں ہے) اس حدیث کو احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، عراقی رحمہ اللہ کے مطابق اس کی سند جید ہے، جبکہ دیگر محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

اللہ کے بندو!

جو شخص آخرت بھول کر اپنی شہوت کے پیچھے لگ جائے اور اللہ تعالی کی شریعت سے رو گردانی شروع کر دے تو وہ بہت بڑے خسارے میں پڑ گیا ہے، وہ بڑی بدبختی میں ملوث ہو چکا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ}
 اے ایمان والو! تمہیں تمہارے اموال اور اولاد ذکرِ الہی سے غافل نہ کر دیں، اور جو غافل ہو گیا تو وہ ہی خسارہ پانے والے ہیں۔[المنافقون: 9]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (دیناروں کا غلام تباہ ہو گیا، درہموں کا غلام تباہ ہو گیا، لباس کا غلام تباہ ہو گیا، وہ بار بار گرنے کیلیے تیار رہتا ہے، اور جب اس کو کانٹا بھی چبھ جائے تو کوئی اس کا کانٹا نکالنے والا نہیں ہوتا۔ اگر اسے کچھ دے دو تو راضی رہتا ہے اور اگر کچھ نہ دو تو ناراض ہو جاتا ہے۔)

اس لیے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈور، اور ایسے کسی بھی اقدام سے احتراز کرو جو تمہیں رضائے الہی سے دور لے جائے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى}
 بلکہ تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت تمہارے لیے بہتر اور دائمی ہے۔[الأعلى: 16، 17]

مسلمانو!

 اس وقت بہت سے لوگوں کے دلوں پر دنیا کی چکا چوند کا قبضہ ہے، دنیاوی رنگینیوں اور لذتوں کے لیے بہت سے مسلمانوں کے دل ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، تو ایسے میں مسلمان کو محاسبۂ نفس والی نگاہ سے دیکھنا چاہیے تا کہ حقائق واضح ہو سکیں اور ممکنہ نتائج کی آشنائی ملے؛ چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا}
 مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں آپ کے رب کے ہاں جو باقی رہنے والا ہے وہ نیک اعمال ہیں ان پر امید رکھنا بھی بہتر ہے۔ [الكهف: 46]

اور یہ نبوی وصیت کو عملی جامہ پہنانے کیلیے گوش گزار فرمائیں، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے سے پکڑا اور وصیت میں فرمایا: (دنیا میں ایسے رہو کہ گویا تم اجنبی ہو یا راہ گزرتے مسافر)" اسی لیے ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی کہا کرتے تھے: "جب تم شام کر لو تو [اخروی عمل کے لیے]صبح کا انتظار مت کرو، اور جب صبح کر لو تو شام کا انتظار مت کرو، اپنی صحت کے ایام میں بیماری کے لیے اور زندگی میں موت کے لیے کچھ اسباب اپناؤ" بخاری


زندگی آخرت کی تیاری کا واحد موقع - خطبہ جمعہ مسجد نبوی ترجمہ: شفقت الرحمان مغل فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ ...

آج کی بات ۔۔۔۔ 17 فروری 2018

~!~ آج کی بات ~!~

درخت اپنے پھل سے، اور انسان اپنے قول و فعل سے پہچانا جاتا ہے۔ 

~!~ آج کی بات ~!~ درخت اپنے پھل سے، اور انسان اپنے قول و فعل سے پہچانا جاتا ہے۔ 

فوٹو سیشن


فوٹو سيشن ۔۔ 
راحيلہ ساجد

ارے ارے ميں آپ کا فوٹو سيشن نہيں کرنے لگی ، آپ بالکل آرام سے بيٹھ کر يہ تحرير پڑھيے ۔ ميں تو فوٹو سيشن کا پوسٹ مارٹم کرنے لگی ہوں ۔ فوٹو سيشن کروانا بری بات نہيں ۔ يہ کسی بھی يادگار موقع کی تصاوير ہوتی ہيں جو سالہا سال گزرنے کے بعد جب بھی نظروں کے سامنے سے گزریں تو ان لمحوں کی ياد دل ميں تازہ کر جاتی ہيں ۔ ليکن ميں جس فوٹو سيشن کی بات کرنے جا رہی ہوں ، اکثريت اس سے واقف بھی ہوں گے اور شايد دل ہی دل ميں اسے ناپسند بھی کرتے ہوں گے ۔ اور يہ وہ فوٹو سيشن ہے جو شادی بياہ کے موقع پرکيا جاتا ہے ۔ 

پہلے شادی بياہ سادہ سے ہوتے تھے۔ کيمرے ميں فلم رول ڈالا جاتا تھا جن ميں 24 يا 36 تصاوير ہوتی تھيں ۔ ان کی ڈيويلپنگ ، پرنٹنگ بھی ايک مرحلہ ہوتی تھی اور اس پر ٹھيک ٹھاک رقم (اس زمانے کے حساب سے) خرچ ہو جايا کرتی تھی ۔ اس ليے بس انتہائی ضروری ضروری تصاوير لی جاتی تھيں تاکہ اس موقع کی کچھ تو ياد رہے ۔ پھر زمانہ بدلا ۔ ويڈيو کيمرہ آگيا ۔ پہلے پہل سادہ سی فلم بنائی جاتی جس ميں مہندی ، مايوں ، بارات اور وليمے کے حساب سے انڈين گانوں کی سيٹنگ کر کے اسے پر کشش بنا ديا جاتا تھا۔ 

پھر مزيد جدت پيدا ہوئی تو فلم کو تھوڑا گليمر ٹچ ديا جانے لگا ۔ اب چونکہ ڈيجيٹل کيمرہ بھی متعارف ہو چکا تھا تو سينکڑوں کے حساب سے تصاوير کھينچے جانے لگيں ۔ دلہن کے کچھ خاص سٹائل سے پوز بنواۓ جانے لگے ، کسی انڈين گانے کے ساتھ ميچ کر کے اس سے پوز بنواۓ جاتے ۔ پھر ايک قدم اورآگے بڑھے تو دلہا ، دلہن کو اکٹھا کھڑا کر کے يا اکٹھا بٹھا کر ايسے سٹائل بناے جانے لگے کہ شادی کی ويڈيو فلم واقعی فلم کی طرح دکھنے لگی ۔ گانے ، سٹائل ، ايکشن سب ايک جگہ ۔ ابھی ايک اچھی بات يہ تھی کہ سب کچھ اس شادی ہال کے اندريا ڈريسنگ روم تک ہوتا تھا۔ ليکن يہ اچھی بات زيادہ عرصہ نہ چل سکی ۔ آنے والے دنوں ميں بيوٹی پارلر سے لے کر بيڈروم تک آنے کے دوران کہيں بھی راستے ميں رک کر خوبصورت راستوں ، پلوں ، دروازوں ، پارکوں پر دلہا دلہن سے ايکشن کرواۓ اور پوز بنواۓ جانے لگے ۔ چاہے فنکشن کو دير ہو جاۓ ، مہمان انتظار کر کے سوکھ جائيں ، بچے تھک کر بھوکے سو جائيں ليکن يہ فوٹو شوٹس اب کسی بھی شادی کا ايک ايسا لازمی حصہ بن چکے ہيں جيسے فوٹو شوٹ نہ ہوۓ تو شادی ادھوری رہ جاۓ گی ۔ 

بات يہيں تک رہتی تو شايد ميں نظر انداز بھی کر ديتی ۔ ليکن کچھ عرصے سے يہ فوٹو شوٹس مساجد ميں بھی ہونے لگے ہيں ۔ اب کچھ لوگ شادی کوتھوڑا مذہبی ٹچ دينے کے ليے نکاح کی تقريب مسجد ميں رکھتے ہيں ، چاہے باقی تمام تقاريب اسلامی يا مذہبی تعليمات سے متصادم ہوں ۔ اب ہوتا کيأ ہے کہ نکاح تو مسجد ميں ہو رہا ہے ليکن البم سيٹ کرنے کے ليے تصاوير تو لازمی لينی ہيں تو مسجد کے تقدس اور پاکيزگی کا خيال کيے بغير وہاں بھی وہی فوٹو شوٹس کرواۓ جاتے ہيں ۔ مجھے تفصيل ميں جانے کی ضرورت نہيں کہ يہ فوٹو سيشن کيسے ہوتے ہيں ۔ فيس بک کی بدولت آپ سب اس سے واقف ہوں گے۔ بڑی اور مشہور مساجد ميں نکاح اور فوٹو سيشن کا باقاعدہ ٹائم سيٹ کيا جاتا ہے۔ 

اسی طرح بہت سے نۓ شادی شدہ جوڑے شادی کے بعد عمرے کے ليے جاتے ہيں ۔ پچھلے کچھ عرصے ميں حرم پاک کے صحن ميں کھڑے ہو کر ايسی ايسی تصاوير کھينچوائی گئی ہيں کہ جنہيں ديکھ کر مجھ جيسے گنہگار بندے کانپ جاتے ہيں ۔ ميں وہاں اپنی سادہ سی تصوير بھی نہ کھينچواؤں اوريہ تصاوير ايک دوسرے کی کمرميں ہاتھ ڈالے ، ايک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ، ايک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھے اورنہ جانے اس طرح کی کيسی کيسی تصاويرکھينچی جاتی ہيں اور پھر فخر سے فيس بک پر اپ لوڈ بھی کی جاتی ہيں ۔

وہاں اس کے حضور ميں کھڑے ہو کر آپ کو ايسے ايکشنز بنانے اورکرنے کا وقت کيسے مل جاتا ہے ۔ اس مختصر سے وقت ميں تو انسان گناہوں سے توبہ کرے اوررب تعالی سے اس کی رحمت طلب کرے ۔ 

مجھے نہ کسی کے ايمان کو ماپنا ہے ، نہ کسی قسم کا فتوی دينا مقصود ہے ۔ نيتوں کے حال اللہ تعالی جانتا ہے ليکن ميرے خيال ميں حرم پاک ميں يا مسجد کا بہرحال اتنا احترام تو ہونا چاہيے کہ آپ ان مقامات کے اندر ايسی تصاوير کھينچنے يا کھنچوانے سے پرہيز کريں ۔ بہت دل کرے تو يادگار کے طور پر سادہ سی 2، 4 تصاوير بنا ليں اور باہر آ کر آپ جتنی مرضی چاہيں تصاوير کھينچيں اور جس انداز سے چاہيں ، پوز بنائيں اور ايکشن ماريں ۔ آپ کی البم بہت خوبصورت بنے گی ۔

طالب دعا ۔ راحيلہ ساجد

فوٹو سيشن ۔۔  راحيلہ ساجد ارے ارے ميں آپ کا فوٹو سيشن نہيں کرنے لگی ، آپ بالکل آرام سے بيٹھ کر يہ تحرير پڑھيے ۔ ميں تو فوٹ...

آج کی بات ۔۔۔ 15 فروری 2018

~!~ آج کی بات ~!~

کچھ سفر اتنے خوبصورت دکھتے ہیں،
کہ منزل بھول جاتی ہے۔
پر 'سفر' اہم نہیں 'منزل' اہم ہے۔ 


~!~ آج کی بات ~!~ کچھ سفر اتنے خوبصورت دکھتے ہیں، کہ منزل بھول جاتی ہے۔ پر ' سفر ' اہم نہیں ' منزل ' اہم ہے۔ 

طاقت ، احساس اور انتخاب ۔۔۔۔ ایک مکالمہ

Image result for power quotes
طاقت ، احساس اور انتخاب
مکالمہ از عمر الیاس

"میرا نام بہت طاقتور ہے۔۔۔ اس میں بہت رعب ہے"۔

"جی :)۔۔۔۔ کیسے پتا چلا آپ کو؟"

"ایک بزرگ نے بتایا تھا"۔

"اور کیا بتایا تھا؟"

"اور یہ کہ طاقت کا پتا نہ ہونا بہتر ہے، ان کو کم ست کم استتعمال اس سے بہتر، اور ان کا قابو میں رکھنا سب سے بہتر"۔

"بالکل ۔۔۔ طاقت کے دو بہت اہم پہلو ہیں

"وہ کیا؟"

"طاقت کے ساتھ ذمہ داری ضروری ہے

"ذمہ داری بولے تو؟"

"احساس"

"اور احساس کس چیز کا ہو؟"

"احساس انسانوں کا، احساسات کا، حسّیات کا، جذبات کا، عمل/ردعمل کا۔۔۔ ہر اس چیز کا جس پر طاقت اثر انداز ہوتی ہے

"آہاں"۔

" دوسرے۔۔ طاقت کے ساتھ انتخاب لازمی ہوتا ہے، انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہئیے ۔۔۔ بولے تو 'فیصلہ سازی' :)

"ہمم۔۔۔۔۔۔ اور احساس اور انتخاب میں کلیدی اہمیت کس کی ہے؟"

"احساس میں کلیدی اہمیت 'دل' کی ہے ۔۔۔ اور انتخاب میں 'دماغ' کی ۔۔۔ "



طاقت ، احساس اور انتخاب مکالمہ از عمر الیاس "میرا نام بہت طاقتور ہے۔۔۔ اس میں بہت رعب ہے"۔ " جی :)۔۔۔۔ کیسے پتا...

اللہ سے ملاقات

Image result for life is journey from allah to allah
اللہ سے ملاقات

چند دن قبل اندرون شہر جانا ہوا۔ ایک دوست سے ملنا تھا۔ گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی کہ ایک کھلا خالی پلاٹ نظر آ گیا۔ یہاں پہلے سے دس بارہ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ گاڑی کھڑی کر کے میں دوست کی طرف چلا گیا۔ دو گھنٹے بعد واپس آیا۔ گاڑی میں بیٹھا اور اسے چلانے ہی لگا تھا کہ ایک باریش شخص گاڑی کے قریب آیا اور بولا۔ گاڑی کھڑی کرنے کا کرایہ دو۔ میں نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ کہنے لگا‘ دو گھنٹے کے سو روپے بنتے ہیں۔ میں نے پوچھا‘ تم سرکاری ٹھیکیدار ہو یا نجی؟ بولا‘ یہ ہمارے مالکوں کا پلاٹ ہے۔ وہ بیرون ملک ہوتے ہیں۔ ہم اس کی رکھوالی کرتے ہیں۔ جو گاڑی یہاں کھڑی کرتا ہے اسے کرایہ دینا پڑتا ہے۔ مجھے دیر ہو رہی تھی۔ اسے سو کا نوٹ تھمایا اور وہاں سے نکل آیا۔ 

بعد میں دیر تک میں سوچتا رہا کہ وہ شخص اس زمین کا مالک بھی نہ تھا لیکن اس نے کچھ دیر کا کرایہ وصول کیا تو پھر یہ زمین جس پر ہم رہ رہے ہیں‘ آخر اس کا مالک بھی تو ہے ‘ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس زمین اور اس کی نعمتوں کے استعمال کے بدلے ہم اسے کیا دے رہے ہیں؟ میں نے تو ایک خالی پلاٹ پر گاڑی کھڑی کی‘ نہ وہاں سے پانی پیا‘ نہ وہاں کوئی پھل تھے جو توڑے جاتے‘ نہ ہی کوئی اور نعمتیں لیکن اس زمین پر تو ہم لاکھوں کروڑوں نعمتوں سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ خزانوں کے خزانے ہیں جو ختم ہونے کو نہیں آ رہے۔ تو پھر ہم کس غلط فہمی میں ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ اللہ ہمارے دلوں کے راز تک جانتا ہے‘ ہماری ہر بات‘ ہر عمل ایک رجسٹر میں نوٹ کیا جا رہا ہے اور یہ رجسٹر قیامت کے روز ہمیں دکھایا جائے گا اور انسان اس وقت حیران ہو جائے گا کہ اس نے معمولی سے معمولی نیکی یا گناہ کیا ہو گا‘ وہ بھی اس میں موجود ہو گا۔ 

لیکن یہ کیسے ہو گا؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب جب ہم نہیں پاتے اور غیب پر دل سے یقین نہیں رکھتے تو ایمان کی کمزوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میں آپ کو تین مثالیں دوں گا‘ آپ خود بتائیے گا اگر انسان یہ کچھ کر سکتا ہے تو انسان کو بنانے والا کیا کچھ نہیں کر سکتا۔

 پہلی او بی ڈی ڈیوائس ہے۔ ماچس کی ڈبیہ جتنی اس ڈیوائس کی قیمت ہزار روپے ہے۔ یہ الیکٹرانک گاڑیوں میں ڈیش بورڈ کے نیچے پلگ کی جاتی ہے۔یہ بلیوٹوتھ یا وائرلیس کے ذریعے کچھ معلومات ہمارے موبائل فون تک پہنچاتی ہے۔مثلاً یہ بتاتی ہے کہ گاڑی کی بیٹری کتنا کرنٹ دے رہی ہے‘ گاڑی کے انجن کا ٹمپریچر کیا ہے‘ گاڑی کا آر پی ایم کتنا ہے‘ اس کا ٹارک‘ اس کی سپیڈ کتنی ہے‘ اس میں پٹرول کتنا ہے‘ یہ ایک لٹر میں کتنے کلومیٹر چل رہی ہے‘ اس کے علاوہ یہ ڈیوائس بتاتی ہے کہ گاڑی کے انجن یا الیکٹرانک سرکٹ میں نقائص تو موجود نہیں‘ اگر کوئی نقص ہوتا ہے تو یہ فوراً موبائل سکرین پر ظاہر کر دیتی ہے‘ یہ بتاتی ہے آپ نے کس ملک کے کس شہر کے کس علاقے سے سفر شروع کیا اور کہاں ختم کیا‘ سفر کا دورانیہ کتنا تھا‘ اس میں پٹرول کتنا خرچ ہوا‘ آپ کی ایوریج‘ کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ سپیڈ کیا رہی‘ آپ نے بریکیں کتنی مرتبہ استعمال کیں وغیرہ وغیرہ۔ 

دوسری ڈیوائس کار ٹریکر ہے۔ یہ بھی گاڑی کے اندر خفیہ جگہ پر نصب ہوتا ہے۔ ٹریکنگ کمپنی کے دفتر میں بیٹھے لوگ آپ کی درج ذیل معلومات لمحہ بہ لمحہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔مثلاً جیسے ہی گاڑی سٹارٹ ہوتی ہے انہیں پتہ چل جاتا ہے‘ ساتھ ہی آپ کے موبائل پر ایس ایم ایس بھی آ جاتا ہے‘ اگر کوئی چور گاڑی لے اڑتا ہے تو یہ میلوں دُور بیٹھے انجن آف کر سکتے ہیں‘ گاڑی کی سپیڈ کیا رہی‘ گاڑی کن گلیوں سڑکوں سے ہوتی ہوئی منزل مقصود تک پہنچی‘ یہ سب کچھ ایک نقشے کی شکل میں ان کے سامنے آ رہا ہوتا ہے۔ وہ یہاں تک جان سکتے ہیں کہ فلاں موڑ یا پوائنٹ پر گاڑی کی سپیڈ کیا تھی‘ یہی نہیں وہ اپنے دفتر میں گاڑی میں موجو د افراد کی باتیں بھی سن سکتے ہیں‘ اگر گاڑی میں کیمرہ ہو گا‘ وہ ان کی حرکات دیکھ بھی سکتے ہیں اور انہیں ریکارڈ بھی کر سکتے ہیں اور یہ سارا ڈیٹا وہ دنیا میں کہیں بیٹھے دیکھ سکتے ہیں۔

تیسری چیز ہے ایک ہیلتھ سافٹ ویئر جو ہمارے موبائل فون میں انسٹال ہو جاتا ہے۔ یہ سافٹ ویئرآپ کو بتاتا ہے‘ آپ نے آج کتنی لمبی واک کی‘ اس کا دورانیہ کتنا تھا‘ آپ کتنی مرتبہ رُکے‘ آپ کے چلنے کی رفتار کیا تھی‘ آپ کا دل کتنی مرتبہ دھڑکا‘ آپ کی کتنی کیلوریز خرچ ہوئیں‘آپ نے کتنے قدم اٹھائے‘ ایک منٹ میں کتنی مرتبہ سانس لیا‘ایکسرسائز یا واک کے دوران آپ کی رگوں پر دبائو کتنا رہا‘ اس کے علاوہ یہ سافٹ وئیر آپ کے خون میں موجود آکسیجن لیول اور واک کے دوران آپ کے بولے گئے ایک ایک لفظ کی ریکارڈنگ بھی دکھا سکتا ہے۔ 

یہ صرف تین مثالیں تھیں‘ سوال یہ ہے کہ اگر ہزار روپے کی ڈیوائس گاڑی کے پل پل کی خبر دے سکتی ہے‘ اس میں پیدا ہونے والی خرابی اور اس کے حل تک سے آگاہ کر سکتی ہے‘ گاڑی کے انجن کی باقی رہ جانے والی زندگی اور اس کی خامیاں بتا سکتی ہے‘ اگر ٹریکنگ کمپنی کا چند ہزار کا ٹریکر آپ کی گاڑی کی ہر حرکت اور آپ کی آواز اور تصویر تک ریکارڈ کر سکتا ہے اور سال ہا سال کا ڈیٹا محفوظ بھی رکھ سکتا ہے اور پلے سٹور سے مفت ڈائون لوڈ ہونے والا ایک سافٹ وئیر آپ کے اٹھنے والے قدم گن سکتا ہے‘ ان کی سمت اور ان کی رفتار کا تعین کر سکتا ہے‘ یہ آپ کے دل کی دھڑکن ‘ خون کا دبائو اور خون میں موجود آکسیجن کی مقدار تک بتا سکتا ہے تو پھر وہ ہستی‘ جس کے قبضۂ اختیار میں میری ‘آپ کی اور اس دنیا کے ہر جاندار کی جان ہے‘ جس نے یہ ٹیکنالوجی ‘ یہ ڈیوائسز اور یہ سافٹ ویئربنانے والوں کو بنایا‘ جس نے ان دماغوں کو تخلیق کیا جو ہماری گاڑیوں‘ جہازوں‘ ڈرونوں اور انسانوں کی ہر حرکت کو گلوبل پوزیشننگ سسٹم اور سیٹیلائٹس کی مدد سے کنٹرول کر رہے ہیں تو پھر وہ جو علیٰ کل شئی قدیرہے‘ علیم بذات الصدورہے ‘مالک یوم الدین ہے ‘جس نے پرندے کے چار ٹکڑوں کو آپس میں جوڑ کر زندہ کر دیا‘ جس نے ابراہیم ؑ کو لگنے والی آگ کو ٹھنڈا کر دیا اور جس نے بنو مخزوم کی زنیرہ ؓ کی گرم سلاخوں سے پگھلائی گئی آنکھیں واپس لگا دیں‘ وہ اپنی ہی پیدا کردہ مخلوق کی حرکات‘ سکنات اور افعال سے کیونکر واقف نہ ہو گا؟ اگر کمپیوٹر سائنس میں دو سال لگانے والا گاڑیوں کی لمحہ بہ لمحہ نقل و حرکت نوٹ کرنے والا سافٹ ویئر بنا سکتا ہے تو اس مالک الملک کے لئے کیا مشکل ہے کہ وہ کسی ڈیوائس ‘ کسی سافٹ وئیر‘ کسی رجسٹر میں ہماری زندگی کے پل پل کو نوٹ نہ کر سکے اور ایک وقت مقررہ پر ہمارے سامنے لا نہ سکے؟ آپ خود دیکھیں ‘ ہمارے زیادہ تر گناہ ایسے ہوتے ہیں جو ہم چھپ کر کرتے ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں ہمیں کسی نے دیکھا نہیں لیکن جب ہم ان مثالوں پر غور کریں تو جسم میں ایک جھرجھری سی آ جاتی ہے کہ ہم کس سے چھپ کر گناہ کرتے ہیں جو اندھیری رات میں‘ زمین میں دبے سیاہ پتھر کے اندر موجود کیڑے کی حرکت سے واقف بھی ہوتا ہے‘ اسے دیکھتا بھی ہے اور اسے رزق بھی پہنچاتا ہے۔

ذرا سوچئے‘ آپ کا باس آپ کو ایک مہینے کے لئے کسی جگہ مارکیٹنگ کے لئے بھیجے‘ کیا آپ کی یہ کوشش نہیں ہو گی کہ آپ زیادہ سے زیادہ محنت کریں‘ زیادہ سے زیادہ آرڈرز اکٹھے کریں تاکہ جب اپنے باس کے سامنے پیش ہوں تو سرخرو ہو سکیں؟ کیا آپ چاہیں گے کہ آپ اس حالت میں اس کے سامنے جائیں کہ آپ کے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے کچھ بھی نہ ہو؟ ہم سب نے اسی طرح ایک دن اپنے خالق کے سامنے پیش ہونا ہے ‘ اپنے ایک ایک پل کا حساب دینا ہے اور اگر شرمندگی سے بچنا ہے تو ہمیں چاہیے ‘ہم سورہ کہف کی اس آیت کو دل میں بٹھا لیں: پس‘ جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو‘ اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے ۔

اللہ سے ملاقات تحریر: عمار چوہدری چند دن قبل اندرون شہر جانا ہوا۔ ایک دوست سے ملنا تھا۔ گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی کہ ا...

آج کی بات ۔۔۔ 14 فروری 2018


~!~ آج کی بات ~!~

 دین ایک راستہ ہے اور راستے پر جب تک چلا نہ جائے،
 منزل نہیں ملتی۔

~!~ آج کی بات  ~!~  دین ایک راستہ ہے اور راستے پر جب تک چلا نہ جائے،   منزل نہیں ملتی۔

دل سے دعا کیسے مانگتے ہیں؟

Image result for dua heart

دل سے دعا کیسے مانگتے ہیں؟ میں سوچ میں پڑ جاتی- مجھے امی کی بات عجیب لگتی تھی----دل سے دعا----میں اتنی کم عمرتھی کہ دل اور زبان کے فرق کو نہیں سمجھتی تھی اور مجھے یہ تشویش بھی ہوتی تھی کہ میں واقعی صرف زبان سے بول بول کر دعا مانگا کرتی تھی----تو پھر کیا دعا مانگنے کا طریقہ کوئی اور تھا؟---- کوئی ایسا طریقہ جس سے دعائیں واقعی ہی قبول ہو جاتی تھیں-"

مجھے تجسّس ہوتا اور میں اپنی سیکنڈ پوزیشن کو بھول جاتی-

"دل سے دعا اس طرح مانگتے ہیں کہ انسان ہر وقت صرف وہی ایک چیز مانگے جو اسے چاہیے ہو-" امی مجھے بڑی سنجیدگی سے بتانا شروع کرتیں-

"اور اگر ایک سے زیادہ چیزیں چاہیے ہوں؟" مجھے یک دم الجھن ہوتی-

"مگر ایک وقت میں تو کوئی ایک ہی چیزبہت زیادہ چاہیے ہوتی ہے----دوسری کسی بھی چیز سے زیادہ"- امی کہتیں-
"کوئی ایسی چیز یا دعا جس کے آگے باقی تمام چیزیں اور دعائیں غیر ضروری لگیں-" امی کہہ رہی تھیں-

"پھر" میں جلدی سے پوچھتی "اور دعا کرتے ہوۓ ذہن میں کوئی دوسری چیز نہیں آنی چاہیے----کوئی بھی دوسری چیز-" امی مجھے سمجھاتی اور میں سمجھ جاتی-

اگلے کئی گھنٹے میں امی کی باتوں کے بارے میں سوچتی رہتی- "واقعی میری دعا کیسے قبول ہو سکتی تھی----میں تو دعا مانگتے ہوۓ ساتھ اور بہت سی چیزوں کے بارے میں سوچتی رہتی تھی----دوستوں کے بارے میں----امی اور بابا کے بارے میں----اپنے کھلونوں کے بارے میں----سکول کے بارے میں---- اپنی کتابوں کے بارے میں----اپنے گھر کے بارے میں----سوچنے کے لئے چیزوں کا ایک انبار----ایک جم غفیر ہوتا تھا اس وقت میرے پاس-

"ٹھیک ہے اگلی ٹرم میں ،میں دل سے دعا مانگوں گی صرف زبان سے نہیں-" میں امی کی وضاحت سے مطمئن ہوتے ہوۓ طے کرتی-

اگلی ٹرم میں سری دعاؤں کے باوجود سیکنڈ بھی نہیں آئی----میری تھرڈ پوزیشن تھی اور میں بے حد خفا-

"مگر اس بار تو میں نے دل سے دعا مانگی تھی-" میں ایک بار پھر امی سے شکایت کرتی- "ہو سکتا ہے اس بار کسی اور نے تم سے زیادہ دل سے الله سے دعا مانگی ہو-" امی کہتیں- میں ناراض ہوتی- "یہ کیا بات ہوئی؟" مجھے امی کی بات کی سمجھ نہیں آئی- "کیا اب الله بھی دعاؤں کا competition کروایا کریں گے؟" میں پوچھتی- "آپ تو کہتی ہیں کہ وہ ہر ایک کی دعا قبول کرتے ہیں؟" میری ناراضگی میں اور اضافہ ہوتا-

"لیکن اگرچیز ایک ہی وقت میں دو لوگ مانگ رہے ہوں تو پھر یہ تو طے کرنا پڑے گا کہ کس کی دعا قبول کرنی چاہیے اور کس کی نہیں-" امی مجھے سمجھاتی- مجھے اس بار امی کی فلاسفى سمجھ میں نہیں آئی- میرے نزدیک ایک چیز دو لوگوں کے مانگنے کا مطلب تھا کے الله مجھے اور دوسری لڑکی دونوں کو فرسٹ پوزیشن دلوا دیتے اور بس----بات ختم

مگر اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ زندگی میں ہر چیز دو لوگوں میں برابر بانٹی جا سکتی ہے نہ ہر جگہ دو لوگوں کی جگہ ہوتی ہے-

عميرہ احمد کے ناول "دربار دل" سے اقتباس

دل سے دعا کیسے مانگتے ہیں؟ میں سوچ میں پڑ جاتی- مجھے امی کی بات عجیب لگتی تھی---- دل سے دعا ----میں اتنی کم عمرتھی کہ دل اور زبان ک...