خود میں تبدیلی ۔۔۔ استاد نعمان علی خان ۔۔۔ دوسرا حصہ

خود میں تبدیلی (Self- Transformation)
استاد نعمان علی خان
دوسرا حصہ

‎جب بھی کوئی حکومت بدلتی ہے، ٹیکنالوجی بدلتی ہے تو وہ قوموں کی زندگی پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ اسی طرح جب حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کو چالیس سال کی عمر میں وحی ملی اور پھر تریسٹھ سال کی عمر تک (تئیس سال) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی ایک قوم کو تبدیل کیا تو یہ ایک بہت بڑی تبدیلی تھی۔ یہ قوم بحیثیت قوم ہی نہیں بلکہ انفرادی طور پر بھی یہ لوگ مکمل طور پر اندر تک بدل چکے تھے۔ 
‎انکا رہن سہن، کھانا پینا، سونا جاگنا، شادی بیاہ، رسم و رواج، مشاغل، تہوار، انکی خوشی ان کے غم، انکی محبتیں، نفرتیں۔۔ سب کچھ بدل گیا تھا۔ جذباتی، ذہنی، ہر طور سے وہ لوگ بدل چکے تھے۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔۔یہ وہ لوگ تھے جو ہزاروں سال سے اپنی روایات پر قائم تھے اور وہ روایات ان کو بہت عزیز تھیں۔ ان روایات کو بدلنا کوئی معمولی اور آسان بات نہیں تھی۔ 
‎اور اب پورا معاشرہ بدل چکا تھا۔ پورا عرب بدل گیا تھا۔ سیاست، کاروبار، تجارت۔۔۔ حتیٰ کہ انکی زندگی کا ہر پہلو بدل گیا تھا۔ وہ تئیس سال میں اسلام کے مطابق ڈھل گئے تھے۔ 
‎اور پھر؟ پھر یہ وہیں تک محدود نہیں رہا۔ اتنی تیزی سے یہ تبدیلی ساری دنیا میں پھیل گئی۔ اور اس تبدیلی کو آج آپ دیکھ بھی سکتے ہیں۔ دنیا کی آبادی کا کتنا بڑا حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تئیس سالوں کی محنت نے دنیا کو بدل دیا۔ 
‎آج دنیا اسلام کی بدولت آنے والی تبدیلیوں پر بات کرتی ہے۔ وہ لوگ معاشی، سماجی، معاشرتی، تجارتی تبدیلیوں کو ڈسکس کرتے ہیں۔ لیکن ہم ایک مختلف لینس سے دیکھتے ہیں اسکو۔ 
‎کہ وہ ایک کیا وجہ تھی جس سے دنیا بدل گئی؟ وہ وجہ یہ تھی کہ دل بدل گئے تھے۔ اور جب دل بدلتے ہیں تو زندگی بدل جاتی ہے۔ دنیا بدل جاتی ہے۔ 
‎اللہ کہتے ہیں کہ جب دل میں ایمان داخل ہوجائے تو مطلب دل میں روشنی (نور) داخل ہوجاتی ہے۔ اور روشنی کی ایک خاص بات ہے کہ یہ محدود نہیں رہتی۔ پھیلتی ہے۔ یعنی ایمان کی روشنی انسان کو اندر سے بدلتی ہے اور پھر یہ ایمان پھیلنے لگتا ہے۔ 

‎اب ہم پہلے اللہ کے چار ناموں پر بات کریں گے جو اس سورہ کے شروع میں ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان چار طریقوں پر بات کریں گے جس کے ذریعے آپ نے قوم کو بدلا۔ اور پھر ان دونوں کو ملا کر سیلف ٹرانسفارمیشن پر بات کریں گے۔

‎پہلی آیت میں اللہ کے جو چار نام استعمال ہوئے ہیں وہ ہیں۔ 
الملک۔۔۔۔ بادشاہ
القدوس۔۔۔۔ پاک
العزیز۔۔۔۔۔ مختار
الحکیم۔۔۔۔۔ دانا
‎ان ناموں کی گہرائی میں بہت زیادہ ڈسکشن ہوسکتی ہے۔ لیکن اس لیکچر کے لئے آپ ان معنی کو یاد رکھیں۔ بادشاہ، پاک، مختار، دانا۔۔
‎امام رازی کہتے ہیں کہ ان چار ناموں کو یکجا کیا جا سکتا ہے. یہ چار نام ہیں تو آپ انہیں دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں. پہلا اور تیسرا نام ایک جیسے ہیں، اور دوسرے و چوتھے ناموں میں کوئی مماثلت موجود ہے. یعنی بادشاہ اور اتھارٹی کا آپس میں کوئی تعلق ہے. اسی طرح پاکیزگی و دانشمندی کا آپس میں کوئی رشتہ ہے. یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ بادشاہ کا اتھارٹی سے کیا تعلق ہے، کہ حکومت یا اتھارٹی تو بادشاہ کی ہی ہے، عزت و توقیر بادشاہ کے لیے ہوتی ہے، بادشاہت و اتھارٹی میں مماثلت پائی جاتی ہے، دونوں وفاداری چاہتے ہیں، دونوں کا حکم ماننا پڑتا ہے. ان کی اطاعت کرنی پڑتی ہے. بادشاہ کی برتری کو تسلیم کیا جاتا ہے اور حکومت کی رٹ قائم رکھی جاتی ہے. تو اللہ کے ان ناموں کا مجھ پر یہ اثر ہوتا ہے کہ یہ مجھے اللہ کا وفادار و اطاعت گزار بندہ بناتے ہیں، مجھے اللہ کے سامنے عاجزی اختیار کرنے والا بناتے ہیں، یہ مجھے اللہ سے ڈرنے کو کہتے ہیں اور اللہ سے محبت کرنے اور اللہ کی طاقت و قوت پہ سبحان اللہ کہنے پر بھی مجبور کرتے ہیں.
 الملك( بادشاہ) 
العزيز ( اتھارٹی )، 
‎یہ دو نام بتاتے ہیں کہ اللہ کس قدر شان و شوکت والا ہے اور آپ اس کے عاجز بندے، عبد، غلام ہیں۔ 

جاری ہے ۔۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں